By Sikander Ayoub:
وہ یونیورسٹی کے آخری سمسٹر کے آخری دنوں میں تھا، اب چند دنوں میں گریجویٹ ہونے والا تھا۔ یونیورسٹی میں اس نے جو کچھ سیکھا اور پڑھا تھا اب اسی کے سہارے زندگی کے سمندر کی بے رحم موجوں کو تیر کے پار کرنا تھا۔ اسے علم نہیں تھا کہ دنیاوی حالات کے سمندر میں اسے کس قدر مشکلات ہونگی، رحمت میرا اچھا دوست تھا، اپنے فیملی میں سب سے محنتی، قابل اور اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔ وہ بھی دوسرے ساتھی طالب علموں کی طرح یونیورسٹی سے فارغ ہونے پر خوش تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ یار دوستوں کے ساتھ ایسی زندگی چلتی رہے، پر حالات کو بدلنا ہی ہوتا ہے اور حالات کے ساتھ بدلنا انسان کے لئے بہت ضروری ہے، تاکہ گزرتے وقت کا مقابلہ کر سکے اور زندگی آسان ہو سکے۔
وہ یونیورسٹی کے آخری سمسٹر کے آخری دنوں میں تھا، اب چند دنوں میں گریجویٹ ہونے والا تھا۔ یونیورسٹی میں اس نے جو کچھ سیکھا اور پڑھا تھا اب اسی کے سہارے زندگی کے سمندر کی بے رحم موجوں کو تیر کے پار کرنا تھا۔ اسے علم نہیں تھا کہ دنیاوی حالات کے سمندر میں اسے کس قدر مشکلات ہونگی، رحمت میرا اچھا دوست تھا، اپنے فیملی میں سب سے محنتی، قابل اور اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔ وہ بھی دوسرے ساتھی طالب علموں کی طرح یونیورسٹی سے فارغ ہونے پر خوش تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ یار دوستوں کے ساتھ ایسی زندگی چلتی رہے، پر حالات کو بدلنا ہی ہوتا ہے اور حالات کے ساتھ بدلنا انسان کے لئے بہت ضروری ہے، تاکہ گزرتے وقت کا مقابلہ کر سکے اور زندگی آسان ہو سکے۔
دن گزرتے گئے رحمت اب گریجویٹ ہو گیا تھا اور چاہتا تھا کہ جلد سے جلد کوئی اچھی سی جاب مل جائے، تاکہ وہ اپنے بہن بھائیوں کا خرچہ اٹھاسکے۔ وہ اپنی پہلی سیلیری سے اپنے ماں باپ کے لئے کچھ کرنا چاہتا تھا، اس لئے اب رحمت سے صبر نہیں ہو رہا تھا۔ حالات کا مقابلہ کرنا اس وقت بہت مشکل ہوتا ہے جب آپ اکیلے ہوں اور ہر چیز اپکے مخالف سمت میں کھڑی ہو۔ ایسے میں یا تو خود کو حالات کے رحم و کرم پہ چھوڑنا پڑتا ہے، اور حالات جو اپکے مستقبل کے لیے فیصلہ کریں اسے مجبوری کے بوتل میں ڈال کر افسوس کے ساتھ ہلا ہلا کر صبح شام غم کے ساتھ پینا پڑتا ہے۔ یا پھر حالات سے لڑنا پڑتا ہے جب تک قسمت کا سورج طلوع نہ ہوجائے۔۔
رحمت کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو رہا تھا، حالات اسے کبھی ادھر تو کبھی لے جا رہے تھے۔ اس کی مثال بڑے سمندر میں ہچکولے کھاتی ہوئی اس چھوٹی سی کشتی جیسی تھی جس کا کپتان خود ڈوب گیا ہو، اور وہ صرف سمندری لہروں کے بھروسے پہ تیر رہا ہو۔
رحمت کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو رہا تھا، حالات اسے کبھی ادھر تو کبھی لے جا رہے تھے۔ اس کی مثال بڑے سمندر میں ہچکولے کھاتی ہوئی اس چھوٹی سی کشتی جیسی تھی جس کا کپتان خود ڈوب گیا ہو، اور وہ صرف سمندری لہروں کے بھروسے پہ تیر رہا ہو۔
وقت گزرتا گیا، دن ، مہینے سال تو جیسے چٹکی میں گزر گئے ہوں۔ رحمت کے لئے اب گزرتا دن بھاری پڑتا جا رہا تھا۔ اپنی دم گھٹتی امیدوں کے ساتھ ہر جگہ اس نے اپلائی کیا پر ایکسپیرینس اور ریفرنس نہ ہونے کی وجہ سے ہر بار ریجیکٹ ہوتا گیا۔ بے روزگاری کے حالات میں اپنے دوستوں خاص کر رشتہ داروں کا سامنا کرنا بھی ایک اذیت اور تکلیف سے کم نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے رحمت نے اپنی سوشل لائف اور انٹریکشن بہت محدود کیا، اور اپنی دنیا میں کھو گیا۔ اپنے خوابوں اور خواہشوں کو ادھورا دیکھ کے وہ اندر ہی اندر ٹوٹ سا گیا اور بلاآخر حالات سے ہار کے اپنی جان دے دی۔۔۔۔
اگر ہم اپنے معاشرے میں اردگرد دیکھیں تو ہمیں ایسے بہت سے رحمت دکھائی دیں گے، جنہوں نے ہار مان کے جان دے دی۔ ان واقعات کا ذمہدار سب سے پہلے میں ہمارے تعلیمی نظام کو دیتا ہوں، ہمارا تعلیمی نظام اب بھی جدید دنیا سے ساٹھ سال پیچھے ہے۔ ہمارا نظام اب بھی ریڈیو اور بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی کے ذمانے میں رینگ رہا ہے۔ جس کی وجہ سے ہزاروں طالب علم جدید دنیا کے ساتھ مقابلہ نہیں کر پاتے اور اپنی جان گنوا دیتے ہیں۔ پورے پاکستان کے کسی بھی کالج اور یونیورسٹی میں کانفیڈنٹ بیلڈنگ، پرسنالٹی بیلڈنگ اور کیرئر کونسلنگ جیسے شعبوں پہ توجہ نہیں دیا جاتا۔ اب بھی زیادہ تر سکولوں اور کالجوں میں پرانی سیلیبس اور ہسٹری یاد رکھنے پہ ہی زور دیا جاتا۔ جس کی وجہ سے ہمارے تعلیمی اداروں سے طلبہ کوالٹی میں نہیں، قوانٹیٹی میں فارغ ہو رہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں کی ناقص کارکردگی کا ادازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں تقریبا 47 فیصد گریجویٹ روزگار کی اہلیت نہیں رکھتے، 35 فیصد گریجویٹس صرف کلرک کی نوکری کی اہلیت رکھتے ہیں، 15 فیصد گریجویٹ ہی بہتر نوکری کے قابل ہیں۔ ورلڈ بینک کے دوسرے رپورٹ کے مطابق پانچویں کا طالب علم دوسری کلاس کا حساب نہیں لگا سکتا۔ ہمارے ملک میں اب بھی دستخط کرنے والے کو بھی پڑھا لکھا سمجھا جاتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ ہمارے ادارے علم سے زیادہ ڈگریاں فراہم کر رہی ہیں تعلیمی نظام کی اس ناقص کارکردگی کی وجہ سے ہمارا ملک تنزلی کا شکار ہے۔۔
بےروزگاری اور دوسرے معاشرتی مسائل کی ایک اور وجہ حکومتی غفلت ہے۔ ملک میں گڈ گورنس اور میرٹ کا نفاذ نہ ہونے کہ وجہ سے حالات ابتر ہو گئے ہیں۔ ہمارے یہاں قابل اور محنتی نوجوان صرف سفارش نہ ہونے کی وجہ سے رہ جاتے ہیں۔ قومی سطح پر نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کے لیے حکومت کی طرف سے کوئی اقدامات نہیں کیا گیا۔ بےروزگاری کو ختم یا کم کرنے کے لئے ایک سال کا انٹرنشپ فراہم کر کے نوجوانوں کو کچھ وقت کے لیئے لالی پاپ دیا گیا۔ حکومت کو تعلیمی ترقی اور بے روزگاری کے خاتمے کے لئے لانگ ٹرم اقدامات شروع کرنے ہونگے، اس کے ساتھ ساتھ میرٹ پہ سختی سے عملدرآمد کروا کے لئے کوشیشیں تیز کرنے چاہئے، اس سے پہلے کہ ہمارے ملک میں رحمت جیسے قابل اور محنتی نوجوان ملک اور حالات سے مایوس ہوجائیں اور ہمارے معاشرے سے ایسے لوگوں کی کمی ہوجائے۔۔
No comments:
Post a Comment