سكهر صوبہ سندھ کا تیسرا بڑا شہر ہے بتایا جاتا ہے کی جدید سکھر کی بنیاد فرنگی جنرل چارلس جیمز نیپئر نے ١٨٤٠ کو رکھی شمالی سندھ مئی دریائی سندھ کے سنگھم پے واقع یہ شہر سندھ سیمت پاکستان بھر میں اپنی تاریخی اور بیشبہا ثقافتی ورثا ، قدرے متعدل مذہبی رجحان ، شدید گرمی اور سكهر بیراج کی وجہ سے جانا جاتا ہے اپنی جگرافیائی محل وقوع کی وجہ سے سكهر کثیر قومی اور کثیر لسانی افراد پر مشتعمل شہر ہے یہی وجہ ہے کی یہاں کئی صدیوں سے مسلمان، ہندو اور مسیحی برادری انتہایی محبّت ور پرامن بقاے باہمی کے اصولوں کے مطابق رواداری کے ساتھ رہتے ہیں
تاریخ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ 326 قبل مسیح میں الیگزینڈر عظیم کے سندھ پر حملہ کرنے تک سكهر شہر سندھ کا دارلخلافہ ہوا کرتا تھا 711 عیسوی میں 17 سالہ محمد بن قاسم سکھر اور زیریں پنجاب سمیت سندھ پر حملہ آورہو گیے اور سکھر کواموی خلافت کا حصہ بنایا. بعد میں مغلوں اور کئی نیم خودمختار قبائل سکھر پر حکومت کرتے رہے سکھر شہر 1809 اور 1824. درمیان یرپور میرس کے کے حوالے کردیا گیا تھا، شاہ شجاع (قندھار کے ایک سردار)نے سکھر کے قریب تالپور کو شکست دی اور 1843 میں برطانوی (جنرل چارلس جیمز نیپئر) حیدرآباد کے قریب میانی کی لڑائیوں میں تالپور کو شکست دی. سکھر، سندھ کے باقی علاقوں کےساتھ ساتھ،1947 ء میں پاکستان کی آزادی تک برطانوی حکومت کے تحت تھا.
تاج برطانیہ کے دور میں سكهر شہرکواہم سماجی و اقتصادی ترقی کودیکھنا نصیب ہوا ١٩٢٣ سے ١٩٣٢ کے دوران برطانوی حکومت نے دریاے سندھ پر سكهر بیراج کو بنایا جو دنیا میں سب سے بڑا آبپاشی کے نظام میں سے ایک کو کنٹرول کرتا ہے 5،001 فٹ طویل بیراج پیلے پتھر اور سٹیل سے بنا ہے اور اس کی سات بڑی نہروں کے ذریعے کھیتوں کی تقریبا 10 ملین ایکڑ پانی کر سکتے ہیں.
سکھر بہت سے چھوٹے اور بڑے پیمانے کی صنعتوں کا مرکز ہے. اہم صنعتوں میں سے بسکٹ فیکٹریوں، سبزیوں تیل اور گھی کے ملز، کپاس ٹیکسٹائل، سیمنٹ، چمڑے، تمباکو، پینٹ اور وارنش، دواسازی، زراعت کے آلات، دھات فاؤنڈری، پمپ، تالا سازی، چاول اور چینی ، ہوجری، کشتی سازی، ماہی گیری لوازمات، دھاگے کی گیند چرخی، ٹرنک سازی، پیتل کا سامان، کٹلری، چینی مٹی کی چیزیں اور دودھ پلانٹ شامل ہیں
سکھر میں زمین کی زرخیزی اور گرم مرطوب موسم کی وجہ سے خریف کے دوران، چاول، باجرا، کپاس، ٹماٹر اور مٹر کاشت کئے جاتے ہیں جبکہ ربی کے دوران گندم، جو اوردالیں کاشت کیے جاتے ہیں؛ایشیا کی سب سے بڑی کھجور کی منڈی بھی سکھر میں واقع ہے
سماجی ترقی کے عشاریوں کے حوالے سے سکھر کے حالات بھی دیہی سندھ کے دوسرے علاقوں سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہیں خاص طور پر معیاری صحت اور معیاری تعلیمی اداروں کا بہت فقدان ہے ڈسٹرکٹ ایجوکیشن رینکنگ-٢٠١٦ کے مطابق سکھر پاکستان کے 152 اضلاع میں سے ٧٧ نمبر پر ہے مزید براں اسکول جانے کی عمر کے بچوں میں سے آج بھی ٣٧فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں اس کےعلاوہ 44 فیصد اسکول بجلی جیسی بنیادی سہولیات، پینے کا پانی، ٹوائلٹ اور چار دیواری کے بغیر چل رہے ہیں یہاں کے سکولوں میں جنسی مساوات بھی ایک اہم مسئلہ ہے ہر ١٠٠ پرائمری سطح کے سکولوں پر صرف ١٢ میڈل ، ایلیمینٹری یا ہائی اسکول ہیں اس کے علاوہ سکھر کے ٧٣ فیصد اسکول ایک استاد یا ایک کلاس روم پر مشتمل ہیں علاوہ ازیں سکولوں میں اساتذہ کی قابلیت بھی نہ ہونے کے برابر ہے جس کی وجہ سے ٣٩فیصد بچے اپنی اسکول کی تعلم مکمّل کرنے سے پہلے ہی اسکول سے ڈراپ ہوتے ہیں اور جو بچے ڈراپ ہونے سے بچتے ہیں ان میں سے ٥٢فیصد بچوں کو اپنی کلاس کی انگریزی اور ریاضی کی کتاب ٹھیک سے پڑنی نہی آتی- اس پسمنظر میں مقامی سیاسی نمایندوں کا کردار یا تو لاتعلقی والا ہے یا پھر معاملات کو اور بگاڈ کی طرف لے کے جانے والا ہے نتیجہ یہ ہے کہ ٨٠ فیصد عوام کی لاشعوری اور ٢٠ فیصد باشعور عوام کی لاتعلقی اور ذاتی مفادات کی وجہ سے آج سکھرمقامی لوگون کی غربت اور جہالت بیچ کے مال بنانے والوں کا بہترین مرکز کے طور پرسامنے آرہا ہے ضرورت اس آمر کی ہے کی مقامی لوگ اپنی ذاتی مفادات سے بالاتر ہو کر اپنے حقوق کے لیے جب تک اپنی آواز بلند نہیں کرینگے اور حکومتی اداروں اور اپنے منتخب کردہ سیاسی نمایندوں کو جوابدہ نہ بنیائینگے حالات میں کوئی بہتری نظر نہی آتی ہے. اب وقت آگیا ہے کی سکھر کے باشعور لوگ اپنی آیندہ آنے والی نسلوں کی خاطر اپنی ترجیحات کا تعین کریں اور معیاری تعلیم کو اپنی ترجیحات میں خاص طور پر جگہ دیں ورنہ آیئے روز ہر چوراہے پر یوں ہی بکاریوں کی کھیپ بڑتی ہی رہےگی اور چند مفادپرست لوگ غریب عوام کے نام پہ اپنی ذاتی مفادات کو آگے بڑاتے رہینگے
No comments:
Post a Comment